Ghulam Muhammad Mahar
آج
کوٹ غلام محمد کےایک گمنام ادیب کے نام
جن کی 12 ستمبر کو 26ویں برسی تھی، کوٹ غلام محمد کے نوجوان شاید ہی انہیں جانتے ہوں۔ میں آج آپ کو کوٹ غلام محمد کی اس شخصیت کے بارے میں کچھ معلومات دیتا ہوں۔ یہ شخصیت ہیں، محمد حنیف مہر کا چھیلوی۔
کوٹ غلام محمد کے نواحی گاؤں مہر محمد بوٹا میں پیدا ہوئے، محمد حنیف مہر کاچھیلوی نے 1957 میں غالبن پہلے جیمس آباد سے سائنس ٹیچر بننے کا اعزار حاصل کیا۔ انہوں نے تعلقہ کے ڈگری کے گاؤں مندراں والا،اور جھلوری شہر ،کان، اور میر پور خاص شہر کے اسکولوں میں اپنی ڈیوٹی سر انجام دی۔ انہوں نے بیک وقت چار زبانوں اردو ،سندھی، پنجابی، اور سرائیکی میں 75 سے زائد کتب لکھیں۔ جن میں، جنرل ھوش محمد شیدی، سندھ کے سیاسی خواتین ،پنج تارے، ون سونے شاعر ،جنوبی سندھ کے چند قلعے، منزل مقصود، داستان زندہ ،لکھ کر ایک ریکارڈ قائم کیا ہے ۔مہر کاچیلوی 1974 سے 1985 تک جیل میں رہے ۔کیونکہ ان سے غیر ارادی طور سےاپنی بیوی قتل ہو گئی تھی ۔جس کے نتیجے میں انہیں عمر قید کی سزا ہوئی ۔ جیل میں انہوں نے مشہور ڈائجسٹون میں سلسلے وار کہانیاں ،ناول، اور افسانے لکھ کر دھلکہ مچا دیا۔ مہرکاچھیلوی نے جیل میں ایم اے کی ڈگری بھی حاصل ۔ 1985 میں حکومت نے اس کی ادبی کاموں کی وجہ سے ان کی سزا معاف کردیں۔ انہوں نے ڈپٹی کمشنرجناب اللہ رکھا آسی کے درخواست پر کتاب ،تاریخ میرپور خاص ،لکھی، بعد میں، انہوں نے ، تاریخ تھرپار کر ،کتاب لکھکر تاریخ سے دلچسپی رکھنے والوں کے لیے تحفہ دیا ہے ۔میر پور خاص ڈویژن کی سب سے پہلی خواتین کی اخبار ،عورت ، جاری کی۔ مشہور ڈاکٹر ڈریگو پر کتاب ، ڈاکٹر ڈریگو کی طبی خدمات، لکھی۔1992 میں سخی جان محمد ادبی ثقافتی تنظیم ٹنڈو جان محمد کی طرف سے کرائی گئی۔ پران کانفرنس میں جناب فقیر بشیر لغاری،کے ساتھ اپنا مقالہ پیش کیا۔ جو کہ راقم کے پاس اب بھی موجود ہیں۔ میر پور خاص کے علاقے بھان سنگھ آباد موجودہ اورنگ آباد میں اپنا پبلیکیشنز ادارہ قائم کیا۔ ادبی تنظیم بزم مہر قائم کی۔ اور بے شمار ادبی تنظیموں کی سرپرستی کی۔ روٹری کلب امیر پور خاص کے لیے بڑی خدمات سرانجام دیں۔12 ستمبر1997 کو یہ یہ فانی دنیا چھوڑ گئے۔ ان کا ایک مشہور شعر ہے ۔۔نشیمن چھوڑنا ممکن ہے ،لیکن یہ ممکن نہیں۔ خزاں دیکھوں، اور یہ کہہ دوں بہار۔ ائی۔
تحریر
محمد عارف مغل۔ کوٹ غلام محمد۔